Showing posts with label Articles. Show all posts
Showing posts with label Articles. Show all posts
اسرائیل کی کامیابیوں کا وقت گزر چکا: مشیر مصری
غزہ ۔۔۔ مرکز اطلاعات فلسطین
فلسطینی مجلس قانون ساز میں اسلامی تحریک مزاحمت (حماس) کے پارلیمانی گروپ ''تبدیلی و اصلاح'' کے جنرل سیکرٹری مشیر مصری نے کہا ہے کہ اسرائیل کی کامیابیوں کا وقت گزرچکا ہے۔ مستقبل فلسطینی عوام اور فلسطین کے اصل حقداروں کا ہے۔
انہوں نے ایک بیان میں کہا کہ اسرائیلی ذرائع کی جانب سے غزہ جنگ کے متعلق صہیونی سرکاری معلومات کے جھوٹے ہونے کا اعتراف حماس کی سچائی کا واضح ثبوت ہے۔ اسرائیل نے غزہ جنگ میں معصوم شہریوں کا قتل عام اور سکولوں، یونیورسٹیوں، ہسپتالوں اور رہائشی عمارتوں کو نشانہ بنا کر کامیابی کے دعوے کیے۔
واضح رہے کہ تل ابیب سے عبرانی زبان میں شائع ہونے والے اخبار ''ہارٹز'' کی کالم نگار عمیرہ ھاس نے کہا ہے کہ غزہ جنگ میں اسرائیلی فوج میں ہونے والے نقصانات کے متعلق سرکاری معلومات حقیقت پر مبنی نہیں ہیں۔ اس بات کا اندازہ جنگ میں شریک اسرائیلی فوجی اہلکاروں کے انٹرویو سے ہوتا ہے۔
مشیر مصری نے مزید کہا کہ عمیرہ ھاس کے اس مضمون سے حماس کے ان بیانات کی سچائی ثابت ہوجاتی ہے جو اس نے دشمن کی صفوں میں ہونے والے نقصانات کے حوالے سے دیے ہیں۔ ثابت ہوتا ہے کہ حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کی قیادت میں مزاحمت کاروں نے کس بہادری سے صہیونی جارحیت کا مقابلہ کیا۔ مزاحمت کاروں نے اسرائیل کو اہداف حاصل کیے بغیر الٹے پاؤں واپس لوٹنے پر مجبور کیا۔
http://palestine-info-urdu.com/
حماس: الاحتلال وفتح يتسارعان لاجتثاث المقاومة
غزة - المركز الفلسطيني للإعلام
أعربت حركة المقاومة الإسلامية "حماس" عن استيائها من موقف سلطة حركة "فتح" التي تسارع في تعزيز التنسيق الأمني مع الاحتلال ومشاركته في حصار غزة لاجتثاث المقاومة وتصفية حركة "حماس" وحفظ أمن العدو الصهيوني، في ظل الانتهاكات المتواصلة للمقدسات الإسلامية في كلٍّ من الضفة الغربية والقدس المحتلة، وارتفاع وتيرة "الاستيطان" وسرقة التاريخ الفلسطيني من أهله.
واستعرضت "حماس" -في البيان الذي صدر عنها اليوم الثلاثاء (9-3)، وتلاه في مؤتمرٍ صحفيٍّ عُقد في غزة، كلُّ من فوزي برهوم وسامي أبو زهري المتحدثان باسم الحركة- تقريرًا لعام 2009 يكشف حقائق مذهلة عن هذه الانتهاكات للاحتلال وسلطة "فتح" معًا.
وأوضح التقرير أن قوات الاحتلال الصهيوني قتلت خلال العام المنصرم 1081 مواطنًا فلسطينيًّا، واعتقلت في العام نفسه 1744 آخرين؛ منهم 317 طفلاً، و19 امرأة، ونفَّذت 1379 عملية توغل؛ منها 1326 في الضفة الغربية و53 في قطاع غزة.
وأضاف التقرير أن الحصار الظالم المفروض على قطاع غزة حصد أرواح 367 مواطنًا فلسطينيًّا منذ بدايته و84 فقط خلال هذا العام.
وبيَّن تقرير "حماس" أن ميليشيا عباس في الضفة الغربية، قتلت تسعة من أبناء حركة "حماس" وواصلت حملتها الاستئصالية والاجتثاثية بحق الحركة؛ فخطفت 1921 من أنصار الحركة وقياداتها خلال 2009 فقط.
وتابع: "بلغ عدد المعتقلين منذ توقيع الورقة المصرية في (14-10-2009م) وحتى يومنا هذا 1083 معتقلاً"، مشيرة إلى اعتقال عددٍ كبيرٍ من الأسرى المفرج عنهم من سجون الاحتلال.
ولفت التقرير إلى أن ميليشيا عباس أعادت إلى الاحتلال 60 صهيونيًّا دخلوا بلدات الضفة الغربية وقراها كوحدات خاصة ومستعربة شاركت في قتل المجاهدين والمقاومين واختطافهم وبثوا الرعب في قلوب المواطنين بدعوى أنهم دخلوا "عن طريق الخطأ".
وطالبت "حماس" الأطراف العربية والإسلامية والدولية بتحمُّل مسؤولياتها في مواجهة الجرائم الصهيونية التي تدل على الطبيعة الدموية والعنصرية للاحتلال، والتي تستهدف وجود الشعب الفلسطيني.
وجددت الحركة دعمها "تقرير غولدستون" الذي فضح جرائم الاحتلال الصهيوني ضد الشعب الفلسطيني، مطالبة بترجمة توصيات التقرير، ومتهمة في الوقت ذاته سلطة "فتح" بمحاولة تقويضه ومنع تطبيقه.
فيما أكدت "حماس" رفضها وإدانتها الحملة القذرة التي يشنها مندوب "فتح" في الأمم المتحدة ضد الممثل الأممي ريتشارد فولك بسبب إدانته في تقريره الأخير جرائم الاحتلال وانتهاكات سلطة رام الله في الضفة.
وفي سياقٍ متصلٍ اعتبرت الحركة أن "العودة إلى المفاوضات في ظل استمرار عمليات "الاستيطان" والتهويد واستهداف المقدسات وتزايدها؛ دليلٌ على درجة السقوط السياسي الذي وصل إليها فريق التسوية وعلى تورُّطه في توفير غطاء للاحتلال عبر هذه المفاوضات للاستمرار في جرائمه ضد شعبنا الفلسطيني ومقدساته وأرضه"، مؤكدة أن تصريحات باراك دليلٌ على أن الرغبة المشتركة للاحتلال وحركة "فتح" ليس لتحقيق المصلحة الوطنية وإنما لإضعاف القوى الوطنية، وفي مقدمتها حركة "حماس".
وتابع البيان الذي تلاه كلٌّ من برهوم وأبو زهري: "إن الإعلان "الإسرائيلي" عن بناء المزيد من الوحدات "الاستيطانية" في ظل وجود ميتشل في المنطقة ثم تبرير المسؤولين الأمريكيين هذا الإعلان؛ هو دليلٌ على انحياز الإدارة الأمريكية، وعلى خطأ الاستمرار في الرهان على دورها، وأنه ليس هناك أي أمل في إحداث أي توازن في الموقف الأمريكي تجاه القضية الفلسطينية".
وأكدت "حماس" أن استمرار حركة "فتح" في حملة اختطافاتها وقمعها قيادات "حماس" وأبنائها يدل على عدم جديِّتها في المصالحة، وأن حديثها عن ذلك هو مجرد شعارات؛ "فالمصالحة ليس توقيعات شكلية على ورقة، وإنما ممارسات تدل على حسن النوايا وصدق المواقف، وهو غير متوفر حتى الآن لدى حركة (فتح)".
واختتم المتحدثان باسم "حماس" بيانهما بدعوة المؤسسات الحقوقية المحلية والإقليمية والدولية إلى تفعيل نتائج هذا التقرير وفضح الانتهاكات التي تضمَّنها.
http://www.palestine-info
ویلنٹائن ڈے کا تاریخی پس منظر اور اس کی حیثیت
پچھلے چند سالوں سے ویلنٹائن ڈے کو مسلمان ممالک میں جس جوش و خروش سے منایا جارہا ہے۔ اس سے ہماری ثقافتی اقدار کا تحفظ سخت خطرےسے دوچار ہوگیا ہے۔ نوجوان نسل کے جوش و جذبے کو دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہےجیسے یہ کوئی نہایت معتبراور ہر دلعزیز تہوار ہے۔ اس روز پھول کی دکانوں پر رش قابل دید ہوتا ہے جیسے یہ کوئی نہایت معتبر اور ہر دلعزیز تہوار ہے۔ اس روز پھول کی دکانوں پر رش قابل دید ہوتا ہے، تحائف اور پھولوں کے تبادلے، موبائل پر محبت کے پیغامات اور انٹرنیٹ پر چیٹنگ کے ہوش ربا مناظر اس کا خاصا ہیں۔ اس روز آوارگی، اوباشی، بے حیائی ، بے ہودگی اور فحاشی اپنے عروج پر ہوتی ہے جبکہ ہماری اسلامی اقدار و روایات ، حیا، عفت و عصمت اور شرافت منہ چھپاتی نظر آتی ہیں۔
آئےدیکھتے ہیں کہ شہوت نفسانی اور ہوس سے بھرپور اس دن کی کیا حیثیت ہے? یہ کب، کیسے اور کہاں سے شروع ہوا? اور کیا اسے بطور ثقافت اپنایا جاسکتا ہے?
آئےدیکھتے ہیں کہ شہوت نفسانی اور ہوس سے بھرپور اس دن کی کیا حیثیت ہے? یہ کب، کیسے اور کہاں سے شروع ہوا? اور کیا اسے بطور ثقافت اپنایا جاسکتا ہے?
ویلنٹائن ڈے کی وجہ تسمیہ
اس دن کو ایک عیسائی پادری سے منسوب کیا گیا ہے۔ اس دن کو ویلنٹائن سے منسوب کرنے کی ایک خیالی اور غیر حقیقی داستان بیان کی جاتی ہے جو کچھ یوں ہے۔ "تیسری صدی عیسوی میں روم میں ویلنٹائن نامی ایک پادری تھے۔ انہیں ایک عیسائی راہبہ سے محبت ہوگئی مگر چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبائوں کے شادی کرنے پر پابندی ہے اس لئے ویلنٹائن نے ایک دن اپنی معشوقہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ مجھے خواب میں بشارت دی گئی ہے کہ 14 فروری کا دن ایسا ہے کہ اگر کوئی راہب یا راہبہ جنسی ملاپ بھی کرلیں تو انہیں گناہ نہیں ہوگا۔ راہبہ نے اس خواب پر یقین کرلیا اور پھر دونوں نے جوش عشق میں وہ سب کچھ کر ڈالا جس کی تمنا ان کے دل میں تھی۔ کلیسا کی روایت کو اس طرح پامال کرنے پر انہیں قتل کردیا گیا۔ بعد ازاں کچھ جنسی آوارگی کے علم برداروں نے اس "شہید محبت" کا خطاب دے دیا اور اس دن کو "یوم آوارگی" کے طور پر منانا شروع کردیا حالانکہ چرچ ہمیشہ اس کی مذمت کرتا رہا اور اس دن کو منانے سے منع کرتا رہا ہے۔
اس دن کو ایک عیسائی پادری سے منسوب کیا گیا ہے۔ اس دن کو ویلنٹائن سے منسوب کرنے کی ایک خیالی اور غیر حقیقی داستان بیان کی جاتی ہے جو کچھ یوں ہے۔ "تیسری صدی عیسوی میں روم میں ویلنٹائن نامی ایک پادری تھے۔ انہیں ایک عیسائی راہبہ سے محبت ہوگئی مگر چونکہ عیسائیت میں راہبوں اور راہبائوں کے شادی کرنے پر پابندی ہے اس لئے ویلنٹائن نے ایک دن اپنی معشوقہ کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ مجھے خواب میں بشارت دی گئی ہے کہ 14 فروری کا دن ایسا ہے کہ اگر کوئی راہب یا راہبہ جنسی ملاپ بھی کرلیں تو انہیں گناہ نہیں ہوگا۔ راہبہ نے اس خواب پر یقین کرلیا اور پھر دونوں نے جوش عشق میں وہ سب کچھ کر ڈالا جس کی تمنا ان کے دل میں تھی۔ کلیسا کی روایت کو اس طرح پامال کرنے پر انہیں قتل کردیا گیا۔ بعد ازاں کچھ جنسی آوارگی کے علم برداروں نے اس "شہید محبت" کا خطاب دے دیا اور اس دن کو "یوم آوارگی" کے طور پر منانا شروع کردیا حالانکہ چرچ ہمیشہ اس کی مذمت کرتا رہا اور اس دن کو منانے سے منع کرتا رہا ہے۔
اسلام میں تہوار منانے کی حیثیتاس وقت دنیا میں پچاس کے قریب آزاد مسلمان ممالک ہیں۔ کہنے کو یہ ممالک اور ان میں رہنے والے مسلمان آزاد ہیں مگر فکری اور اخلاقی لحاظ سے تاحال غلام ہیں تو کچھ ہنود کے تابع فرمان۔ ان ممالک میں مسلمانوں کی طرز زندگی دیکھیں ان کی معیشت اور معاشرت دیکھیں یا سال بھر میں منعقد و تہواروں، جشنوں اور تقریبات کو دیکھیں سب میں کفار کی تہذیب کا رنگ نمایاں نظر آئے گا۔
مسلمان قوم سارا سال جشن اور تقریبات میں مشغول نظر آئے گا جبکہ کافر اقوام چند دن کی عیاشی کے سوا سارا سال ملک و قوم کی بہتری کیلئے کام کرتی دکھائی دیں گے۔ کیا یہ سارے جشن اور میلے اسلام میں جائز ہیں? ہرگز نہیں۔
اگر اسلام میں کسی دن کو یوم جشن کے طور پر منایا جانا قابل تحسین ہوتا تو خود امام الانبیا اپنے صحابہ کی معیت میں یوم بدر مناتے کہ جس دن اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کے جانی دشمن کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا یا پھر فتح مکہ کے دن کو یادگاری تہوار کے طور پر منایا جاتا وہ دن کہ جس دن اللہ تعالٰی نے اسلام کو نہایت مضبوط و توانا کردیا اور مخالفین گردنیں جھکائے معافی کے طلب گار بنے کھڑے تھے۔ تاریخ اسلامی ایسے ایسے عظیم واقعات سے بھری پڑی ہے کہ اگر مسلمان قوم ان ایام کو بطور جشن منانا شروع کردے تو سال کے دن کم پڑجائیں گے اور ایام پورے نہ ہونگے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ اور آپ کے صحابہ کرام کا کردار و عمل جشن منانے کے تصور کی نفی کرتا ہے۔ صحیح بخاری میں یہ سبق آموز واقعہ درج ہے کہ یہودیوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ "تم مسلمان اپنی کتاب میں ایک کی تلاوت کرتے ہو اگر وہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہوتی تو ہم اسے جشن وعید بنالیتے" عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان کی یہ بات سن کر جواب دیا وہ جشن منانے کی دلدادہ قوم کیلئے زبردست درس عبرت ہے۔ آپ نے فرمایا: ہاں مجھے معلوم ہے کہ وہ آیت کب اور کہاں نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے نزول کے وقت کہاں تشریف فرما تھے۔ مجھے سب معلوم ہے یعنی اے یہودیوں! ہمیں سب معلوم ہے مگر تمہاری طرح جشنوں اور میلوں کے دلدادہ نہیں ہیں"۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے "میری قبر کو عید گاہ نہ بناؤ" (سنن ابوداؤد) اس حدیث میں وارد لفظ ‘عید‘ کا مطلب عرس اور میلہ ہی ہے۔ اس کی وضاحت کیلئے قاضی ثناءاللہ پانی پتی کی تشریح ملاحظہ ہو۔ "ترجمہ: جاہل لوگ جو کچھ حضرات اولیاء و شہداء کے مزارات پر کرتے ہیں وہ سب ناجائز ہے۔ ان کو سجدہ کرنا، ان کے گرد طواف کرنا، ان پر چراغاں کرنا اور ان کی طرف سجدہ کرنا اور ہر سال میلوں کی طرح ان پر جمع ہونا جس کا نام عرس ہے ، یہ سب ناجائز ہیں"
مذکورہ بالا گزارشات سے معلوم ہوا کہ جشن و میلے اور تہوار منانے کا مسلمانوں کی تہذیب سے کوئی تعلق نہیں بلکہ مسلمانوں کو اس سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ لہٰذا جو شخص ویلنٹائن ڈے مناتا ہے اور اس یوم آوارگی میں شرکت کرتا ہے وہ گویا ان کفار سے محبت و موالات کا گہرا اظہار کرتا ہے۔
مسلمان قوم سارا سال جشن اور تقریبات میں مشغول نظر آئے گا جبکہ کافر اقوام چند دن کی عیاشی کے سوا سارا سال ملک و قوم کی بہتری کیلئے کام کرتی دکھائی دیں گے۔ کیا یہ سارے جشن اور میلے اسلام میں جائز ہیں? ہرگز نہیں۔
اگر اسلام میں کسی دن کو یوم جشن کے طور پر منایا جانا قابل تحسین ہوتا تو خود امام الانبیا اپنے صحابہ کی معیت میں یوم بدر مناتے کہ جس دن اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کے جانی دشمن کو عبرت ناک شکست سے دوچار کیا یا پھر فتح مکہ کے دن کو یادگاری تہوار کے طور پر منایا جاتا وہ دن کہ جس دن اللہ تعالٰی نے اسلام کو نہایت مضبوط و توانا کردیا اور مخالفین گردنیں جھکائے معافی کے طلب گار بنے کھڑے تھے۔ تاریخ اسلامی ایسے ایسے عظیم واقعات سے بھری پڑی ہے کہ اگر مسلمان قوم ان ایام کو بطور جشن منانا شروع کردے تو سال کے دن کم پڑجائیں گے اور ایام پورے نہ ہونگے۔ لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ حسنہ اور آپ کے صحابہ کرام کا کردار و عمل جشن منانے کے تصور کی نفی کرتا ہے۔ صحیح بخاری میں یہ سبق آموز واقعہ درج ہے کہ یہودیوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا کہ "تم مسلمان اپنی کتاب میں ایک کی تلاوت کرتے ہو اگر وہ آیت ہمارے بارے میں نازل ہوئی ہوتی تو ہم اسے جشن وعید بنالیتے" عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ان کی یہ بات سن کر جواب دیا وہ جشن منانے کی دلدادہ قوم کیلئے زبردست درس عبرت ہے۔ آپ نے فرمایا: ہاں مجھے معلوم ہے کہ وہ آیت کب اور کہاں نازل ہوئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے نزول کے وقت کہاں تشریف فرما تھے۔ مجھے سب معلوم ہے یعنی اے یہودیوں! ہمیں سب معلوم ہے مگر تمہاری طرح جشنوں اور میلوں کے دلدادہ نہیں ہیں"۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے "میری قبر کو عید گاہ نہ بناؤ" (سنن ابوداؤد) اس حدیث میں وارد لفظ ‘عید‘ کا مطلب عرس اور میلہ ہی ہے۔ اس کی وضاحت کیلئے قاضی ثناءاللہ پانی پتی کی تشریح ملاحظہ ہو۔ "ترجمہ: جاہل لوگ جو کچھ حضرات اولیاء و شہداء کے مزارات پر کرتے ہیں وہ سب ناجائز ہے۔ ان کو سجدہ کرنا، ان کے گرد طواف کرنا، ان پر چراغاں کرنا اور ان کی طرف سجدہ کرنا اور ہر سال میلوں کی طرح ان پر جمع ہونا جس کا نام عرس ہے ، یہ سب ناجائز ہیں"
مذکورہ بالا گزارشات سے معلوم ہوا کہ جشن و میلے اور تہوار منانے کا مسلمانوں کی تہذیب سے کوئی تعلق نہیں بلکہ مسلمانوں کو اس سے سختی سے منع کیا گیا ہے۔ لہٰذا جو شخص ویلنٹائن ڈے مناتا ہے اور اس یوم آوارگی میں شرکت کرتا ہے وہ گویا ان کفار سے محبت و موالات کا گہرا اظہار کرتا ہے۔
انتہائی اہم
اے اللہ تو درود بھیج محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اور ان کے آل پراور ان کے تمام ساتھیوں پر
اے اللہ مجھے میرے والدین کو تمام زندہ و مُردہ مومن و مسلم مرد و عورتوں کو بخش دے
یہاں تک کہ انہوں نے ہلاکت کے آثار پر بھی اُسے نہ چھوڑا
یہاں تک کہ انہوں نے کھنڈرات میں بھی اُسے نہ چھوڑا
انہیں قید کیا جانے لگا تو بھی اُسے نہ چھوڑا
اپاہچ (لنگڑے لولے) لوگوں نے بھی اسے نہ چھوڑا
قریب البلوغ لڑکوں نے بھی اُسے نہ چھوڑا
بچوں نے بھی اُسے نہ چھوڑا
آپ کیوں اُسے چھوڑ دیتے ہیں؟؟؟
کس لئے؟؟؟
کیا آپ نہیں جانتے کہ وہ نیک اعمال میں سب سے زیادہ پسندیدہ
سب سے بڑی فرمانبرداری
اللہ کے قریب کرنے والی چیزوں میں سب سے افضل ہے
اگر تم نے اس نماز کی حفاظت نہ کی
اور ویسے تم نے نماز نہ پڑھی جیسے تمہارے رب نے حکم دیا
تو ایک دن آنے والا ہے تیری نماز پڑھی جائے گی
اُس وقت تجھ میں یہ طاقت نہ ہوگی کہ فوت شدہ نماز یں پڑھ سکے
تو اِس گھر میں داخل ہوگا اکیلا
اور تو نہیں پائے گا وہاں سوائے - تیرے عمل کے
اگر تو پابندی کرنے والا ہے ۔ اپنے نماز کی تو تیرا رب تجھے عزت بخشے گا ۔ تیری موت کے وقت
یہ آدمی مسجد نبوی میں سجدہ کی حالت میں وفات پاگیا
ایک حاجی مکہ میں اس وقت وفات پایا جب وہ اپنے دونوں ہاتھ دعا کے لئے اٹھایا ہوا تھا
اب تو خیال کر کہ آئندہ کبھی تیری نماز چھوٹنے نہ پائے
اللہ عزوجل فرماتا ہے: بے شک نماز مومنوں پر وقت مقررہ پر فرض ہے
اے اللہ ہمیں ان لوگوں میں سے بنا جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں
اور ان لوگوں میں سے جو اپنی نمازوں پر ہمیشگی اختیار کرتے ہیں
اور ان لوگوں میں سے جو اپنی نمازوں کی حفاظت کرتے ہیں
امید کرتا ہوں کہ اپنی دعاؤں میں نہ بھولیں گے اللہ آپ کو بہتر بدلہ عنایت فرمائے
آمين
امریکیوں میں مسلمانوں کے خلاف تعصب سب سے زیادہ: گیلپ سروے
دو تہائی امریکیوں کا کہنا ہے کہ انہیں اسلام کے بارے میں برائے نام یا بالکل بھی علم نہیں ہے۔لیکن ایک تازہ جائزے سے معلوم ہوا ہے کہ امریکیوں کی نصف سے زیادہ تعداد اس عقیدے کے بارے میں نا پسندیدہ خیالات رکھتی ہے اور اس جائزے میں لگ بھگ اتنے ہی امریکیوں نے اس کے پیروکاروں کے خلاف منفی خیالات کا اظہار کیا۔
گیلپ سنٹر کے زیر اہتمام رائے عامہ کے ایک نئے جائزے سے ظاہر ہوا ہے کہ امریکی باشندے عیسائیوں، یہودیوں اور بدھوں کی نسبت مسلمانوں کے لیے ممکنہ طور پر دوگنا سے بھی زیادہ منفی جذبات رکھتے ہیں۔سروے سے معلوم ہوا کہ 40 فیصد سے زیادہ امریکیوں کا کہنا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف معمولی تعصب رکھتے ہیں جب کہ 20 فیصد سے کم امریکیوں نے ایسے ہی جذبات دوسرے تین عقائد کے لوگوں کے بارے میں ظاہر کیے۔
ڈالیا موغید،گیلپ سنٹر میں مسلم اسٹڈیز کے شعبے کی ایکزیکٹیو ڈائریکٹر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس سروے سے حیرت انگیز رجحان ظاہر ہوا۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ روایتی سوجھ بوجھ تو یہی کہتی ہے کہ جو لوگ بہت زیادہ مذہبی ہوتے ہیں جو اپنے عقیدے پر بہت زیادہ عمل کرتے ہیں اور وہ دوسرے عقائد کے لوگوں کے لیے زیادہ روادار ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہمیں اس جائزے سے یہ پتا چلا کہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے
جائزے سے ظاہر ہوا کہ جن لوگوں نے یہ بتایا تھا کہ وہ کسی بھی قسم کی مذہبی عبادت میں ہفتے میں ایک سے زیادہ بار شرکت کرتے ہیں، ان میں مسلمانوں کے لیے تعصب کے اظہار کا امکان سروے میں شامل دوسرے افراد کی نسبت دوگنا زیادہ تھا۔
اگرچہ جائزے میں شامل اکثریتی امریکیوں نے کہا کہ وہ اسلام کے بارے میں ناپسندیدہ رائے رکھتے ہیں، موغید کا کہنا ہے کہ اس جائزے میں اس حوالے سے کیے جانے والے سابقہ جائزوں کی نسبت بہت زیادہ بہتری ظاہر ہوئی ہے۔ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ حال ہی میں کیے گئے دوسرے جائزوں سے معلوم ہوا تھا کہ مسلم اکثریتی ملکوں نے امریکہ کی جانب زیادہ مثبت جذبات کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔
موغید کہتی ہی ہیں کہ بین العقائد رواداری میں بہتری کی ایک وجہ امریکی صدر اوباما کی جانب سے امریکیوں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے درمیان افہام و تفہیم بڑھانے کی کوششیں بھی ہو سکتی ہیں
سنٹر فار امیریکن اسلامک ریلیشنز کے ابراہیم ہوپر کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ امریکیوں کو ان کے عقیدے ے بارے میں تعلیم دے کر مسلمانوں کے تاثر کو بہتر بنانے کے لیے بھی کام کر رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کا ادارہ قران کریم کے ایک لاکھ سے زیادہ نسخے مقامی ریاستی اور قومی سطح کے امریکی راہنماؤں میں تقسیم کرنے کی مہم پر کام کر رہا ہے تاکہ اسلام کے بارے میں ان کے علم میں اضافہ کیا جائے اور اس مذہب کے بارے میں منفی تاثرات کو کم کیا جاسکے
گیلپ سنٹر کے زیر اہتمام رائے عامہ کے ایک نئے جائزے سے ظاہر ہوا ہے کہ امریکی باشندے عیسائیوں، یہودیوں اور بدھوں کی نسبت مسلمانوں کے لیے ممکنہ طور پر دوگنا سے بھی زیادہ منفی جذبات رکھتے ہیں۔سروے سے معلوم ہوا کہ 40 فیصد سے زیادہ امریکیوں کا کہنا ہے کہ وہ مسلمانوں کے خلاف معمولی تعصب رکھتے ہیں جب کہ 20 فیصد سے کم امریکیوں نے ایسے ہی جذبات دوسرے تین عقائد کے لوگوں کے بارے میں ظاہر کیے۔
ڈالیا موغید،گیلپ سنٹر میں مسلم اسٹڈیز کے شعبے کی ایکزیکٹیو ڈائریکٹر ہیں، ان کا کہنا ہے کہ اس سروے سے حیرت انگیز رجحان ظاہر ہوا۔
انہوں نے کہا کہ اگرچہ روایتی سوجھ بوجھ تو یہی کہتی ہے کہ جو لوگ بہت زیادہ مذہبی ہوتے ہیں جو اپنے عقیدے پر بہت زیادہ عمل کرتے ہیں اور وہ دوسرے عقائد کے لوگوں کے لیے زیادہ روادار ہو سکتے ہیں۔ لیکن ہمیں اس جائزے سے یہ پتا چلا کہ معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے
جائزے سے ظاہر ہوا کہ جن لوگوں نے یہ بتایا تھا کہ وہ کسی بھی قسم کی مذہبی عبادت میں ہفتے میں ایک سے زیادہ بار شرکت کرتے ہیں، ان میں مسلمانوں کے لیے تعصب کے اظہار کا امکان سروے میں شامل دوسرے افراد کی نسبت دوگنا زیادہ تھا۔
اگرچہ جائزے میں شامل اکثریتی امریکیوں نے کہا کہ وہ اسلام کے بارے میں ناپسندیدہ رائے رکھتے ہیں، موغید کا کہنا ہے کہ اس جائزے میں اس حوالے سے کیے جانے والے سابقہ جائزوں کی نسبت بہت زیادہ بہتری ظاہر ہوئی ہے۔ وہ یہ بھی کہتی ہیں کہ حال ہی میں کیے گئے دوسرے جائزوں سے معلوم ہوا تھا کہ مسلم اکثریتی ملکوں نے امریکہ کی جانب زیادہ مثبت جذبات کا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔
موغید کہتی ہی ہیں کہ بین العقائد رواداری میں بہتری کی ایک وجہ امریکی صدر اوباما کی جانب سے امریکیوں اور دنیا بھر کے مسلمانوں کے درمیان افہام و تفہیم بڑھانے کی کوششیں بھی ہو سکتی ہیں
سنٹر فار امیریکن اسلامک ریلیشنز کے ابراہیم ہوپر کا کہنا ہے کہ ان کا ادارہ امریکیوں کو ان کے عقیدے ے بارے میں تعلیم دے کر مسلمانوں کے تاثر کو بہتر بنانے کے لیے بھی کام کر رہا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ان کا ادارہ قران کریم کے ایک لاکھ سے زیادہ نسخے مقامی ریاستی اور قومی سطح کے امریکی راہنماؤں میں تقسیم کرنے کی مہم پر کام کر رہا ہے تاکہ اسلام کے بارے میں ان کے علم میں اضافہ کیا جائے اور اس مذہب کے بارے میں منفی تاثرات کو کم کیا جاسکے
میں نے یہ مضمون اردو وی او اے کی ویب سائٹ سے حاصل کیا ہے۔ ۔ ۔
www.urduvoa.com دماغ کے بول چال سے متعلق حصے پر نئی تحقیق
یک تازہ ترین تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ انسانی دماغ بول چال کے عمل میں کس طرح کام کرتا ہے۔سین ڈی ایگو، بوسٹن اور نیویارک میں جاری اس تحقیق سے سائنس دانوں کو دماغ کے اس حصے کو سمجھنے میں مدد مل رہی ہے جسے Broca's area کہا جاتا ہے۔اس تحقیق سے یہ معلوم ہوا ہے کہ دماغ اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے جتنا کہ سائنس دان سمجھتے تھے۔
نیویارک یونیورسٹی کا میڈیکل سینٹر ان مراکز میں سے ایک ہے جہاں یہ تحقیق ہو رہی ہے۔
ہیرس کے سرپر پٹیاں بندھی ہیں۔ ان کے دماغ کے دونوں طرف بجلی کی تاریں لگی ہوئی ہیں۔ ہیرس کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر یہ دیکھنے کے لیے کہ آیا ان کی سرجری ممکن ہے، ان کے دماغ کےمسلسل معائنہ کا عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔
وہ کہتی ہیں کہ میں زندگی بھر بہت سی دوائیں استعمال کرتی رہی ہوں اور کچھ عرصے کے بعد وہ بے اثر ہو جاتی ہیں۔ مجھے ابھی بھی مرگی کے جھٹکے لگتے ہیں، اس لیے جب ڈاکٹر میرے دماغ کا وہ حصہ نکال دیں گے، جو ان دوروں کو تحریک دیتا ہے، تو ان کا خیال ہے کہ یہ جھٹکے ختم ہو جائیں گے۔
لیکن اب جب کہ ہیرس اسپتال میں ہیں، سائنس دان ان کے دماغ کے معائنے سے یہ سمجھنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں کہ دماغ کس طرح زبان کو سمجھتا اور اسے استعمال کرتا ہے۔
اس تحقیق کے لیے ماہرین دماغ کے اس حصے کا معائنہ کر رہے ہیں جسے Broca's area کہا جاتا ہے۔ دماغ کے اس حصے کو یہ نام 19 ویں صدی کے ایک فرانسیسی ڈاکٹر Pierre Paul Broca کی وجہ سے دیا گیا جنہوں نے سب سے پہلے دریافت کیا تھا کہ دماغ کا یہ حصہ زبان اور بول چال میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔
اس تحقیق کے دوران ماہرین نے برقی لہروں کے ایک مخصوص طریقے’آئی سی آئی‘ کی مدد سے یہ پتا چلایا کہ دماغ کا یہ حصہ ایک سیکنڈ کے چوتھائی وقت میں بول چال سے متعلق تین مختلف مراحل بتدریج مکمل کرتا ہے۔ اس طریقے کو پہلی بار یہ دستاویزی ثبوت حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا گیا ہے کہ دماغ گرائمر اور الفاظ کی ادائیگی کے سلسلے میں کس طرح کام کرتا ہے۔
سین ڈی ایگو میں قائم یونیورسٹی آف کیلی فورنیا کے سکول آف میڈیسن کے ایرک ہیلگرن اس تحقیق کے ایک اہم رکن ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس تحقیق سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ دماغ کے تقریباً ایک انچ سے بھی چھوٹے حصے میں کئی مختلف حصے تھے، ان میں سے کچھ غالباً ایک دوسرے پر جزوی طور پر جڑے ہوئے تھے، لیکن وہ سب مختلف وقت میں مختلف عمل انجام دے رہے تھے اور یہ سب کچھ اس چھوٹی سی جگہ پر ہو رہا تھا۔
اس حصے میں انجام پانے والا پہلا عمل کسی لفظ کو پہچاننے کا تھا، دوسرا اس لفظ کو کسی جملے کے سیاق و سباق میں سمجھنے کا تھا اور تیسرے کا تعلق اس لفظ کی زبان سے ادائیگی سے تھا۔
ہاروڈ یونیورسٹی کے دماغ کے ماہر سٹیون پنکر بھی اس تحقیق کے مصنفین میں شامل ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ دماغ کے بارے میں علم میں اضافے کے باوجود ابھی تک انسانی دماغ کے بہت سے گوشوں پر پردہ پڑا ہوا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ کسی کو نہیں معلوم کہ کس طرح گوشت کا یہ نرم ٹکڑا، جو کسی پٹھے سے بہت زیادہ مختلف نہیں ہے اور جو کاسہٴ سر میں کسی دلیے کی مانند رکھا ہوا ہے، کس طرح دماغ کا کام سرانجام دیتا ہے۔ یہ مکمل طور پر ایک سربستہ راز ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ دماغ پر کی جانے والی تحقیقات سے اس گورکھ دھندے کے مختلف حصوں پر روشنی پڑ رہی ہے اور ممکن ہے کہ ہم کسی دن اس معمے کو حل کرنے میں کامیاب ہو جائیں۔
میں نے یہ مضمون اردو وی او اے کی ویب سائٹ سے حاصل کیا ہے۔ ۔ ۔
اگر ساری مائیں ایسی ھوں تو
یہ اس ماں کی تصویر ھے جو اپنے غدار بیٹے کی لاش سے گزر رھی ھے جس نے اسرائلیوں کی مدد کی- اگر ساری مائیں ایسی ھوں تو اسلام کی فتح دور نہیں
Subscribe to:
Posts (Atom)